میری الجھنوں سے جو الجھ چکیں
وہ شکایتیں نہ سلجھ سکیں۔
اسے بسایا تھا جس نگاہ میں
وہ نگاہ بھی نہ پلٹ سکیں۔
یوں آیا تھا وہ ہوا کے سنگ
مہربان تھے سارے اس کے رنگ۔
وہ خوشیون کی امید تھی
میری مٹھی سے پھسل چکی۔
تھی امید کہ تو آئیگا
مجھے روشنیوں سے ملائے گا۔
یے بات تھی میرے دل میں ہی
جو کبھی نہ تجھ سے میں کہہ سکی۔
,ہے یے امتحان کہ تو جا رہا
پھر نہ لوٹ کہ تو آئیگا۔
میں نے روکنا جو چاہا بھی
یے بہار بھی نہ رک سکی۔
ریحانہ جوکھیو
No comments:
Post a Comment